معصوم مرادآبادی
مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قائم کرکے خود کو سب سے بڑا ’دیش بھکت‘ ثابت کرنا سنگھ پریوار کا محبوب مشغلہ ہے۔ آر ایس ایس ، وشوہندو پریشد اور بی جے پی کی افواہ ساز فیکٹری ہمیشہ ایسے موضوعات کو اچھالتی رہی ہے جن سے برادران وطن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہو اور وہ انہیں حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کریں۔ جب تک یہ طاقتیں اقتدار سے باہر تھیں تو اس قسم کی حرکتوں کو فرقہ واریت اور فسطائیت کا نام دے کر نظرانداز کردیاجاتا تھا۔ لیکن اب آئین سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد مودی سرکار کے بعض وزیر ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے سراسر آئین کی توہین ہوتی ہے اور ملک شرمسار ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک بیان حال میں مودی سرکار کے وزیر ثقافت ڈاکٹر مہیش شرما نے دیا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان محب وطن نہیں ہوتے اور ان کی دیش بھکتی شکوک وشبہات کے دائرے میں ہے۔ ڈاکٹرمہیش شرما کے بیان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے مرکزی کابینہ کے وزیر کے طورپر حلف اٹھاتے وقت آئین سے وفاداری کی جو قسم کھائی تھی وہ محض ایک فریب کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ان کی اصل وفاداری آر ایس ایس اور اس کے ایجنڈے کے ساتھ ہے جس کا مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے اور یہاں بسنے والی اقلیتوں کے وجود کو ملیامیٹ کرکے ملک کی تاریخ ، تہذیب اور ثقافت کو بھگوا رنگ میں ڈبودینا ہے۔
ثقافت کے مرکزی وزیر ڈاکٹر مہیش شرما نے حال ہی میں ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے وقت مسلمانوں کے تعلق سے جو کچھ کہا ہے وہ آر ایس ایس کی اصل سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔’ انڈیا ٹوڈے‘ کے ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران مسٹر شرما نے اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر ڈاکٹر عبدالکلام کے نام پر رکھنے کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اورنگ زیب کوئی آدرش نہیں تھے اور نہ ہی ان کے کاموں سے کوئی ترغیب ملتی ہے، اس لئے اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر ایک ایسے عظیم انسان کے نام پر رکھا گیا ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود بھی اتنا بڑا راشٹروادی (قوم پرست) اور مانوتاوادی (انسانیت دوست) تھا یعنی اے پی جے عبدالکلام کے نام روڈ کو منسوب کیاگیا ہے۔‘‘
مسٹر شرما کے اس بیان کا واضح مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان نہ تو قوم پرست ہوسکتا ہے اور نہ ہی انسانیت دوست ۔ ایسا شاذ ونادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان ڈاکٹر عبدالکلام کی طرح محب وطن اور انسانیت دوست نکل آئے۔ یعنی سنگھ پریوار اور بی جے پی کے لوگ ان ہی مسلمانوں کو قابل اعتبار سمجھتے ہیں جو ڈاکٹر عبدالکلام کی طرح محب وطن ہوں ورنہ ان کی حب الوطنی شکوک وشبہات کے دائرے میں ہے۔ مسٹر شرما کو اس بات پر حیرت ہے کہ ڈاکٹر عبدالکلام مسلمان ہونے کے باوجود ایک محب وطن اور انسانیت دوست شخص تھے، جن کے نام پر اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کیاگیا۔ مسٹر شرما
کے اس بیان پر جب تنازع کھڑا ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی کہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالکلام کو محب وطن کہا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی تک ڈاکٹر مہیش شرما کے اس انتہائی قابل اعتراض اور دستور مخالف بیان پر حکومت کی طرف سے نہ تو کوئی وضاحت پیش کی گئی ہے اور نہ ہی حکومت نے مسٹر شرما کو اس معاملے میں ندامت کا احساس دلایا ہے ۔ مسٹر شرما نے اپنے بیان سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے جذبات کو نہ صرف ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قائم کرکے تاریخ کا مذاق کا بھی اڑایا ہے۔ ہرچند کہ اس بیان پر انگریزی کے بعض اخبارات میں اداریے اور مضامین تحریر کئے گئے ہیں لیکن ابھی تک مسلم قائدین اور مسلم تنظیموں کی طرف سے اس بیان کی کوئی گرفت نہیں کی گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم جماعتیں اور سماجی کارکن اس انتہائی قابل اعتراض اور اہانت آمیز بیان کے خلاف مسٹر شرما کا گھیراؤ کرکے انہیں معافی مانگنے پر مجبور کرتے جیسا کہ بی جے پی کے لوگ اپنے خلاف معمولی سے معمولی بات پر اکثر کیاکرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلم حلقوں میں اس بیان پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کا سوال ہے تو ہم ڈاکٹر مہیش شرما کو یہ بتانا چاہیں گے کہ آزادی کی تحریک میں جس وقت ہندوستانی مسلمان بڑھ چڑھ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے تو اس وقت سنگھ پریوار کے لوگ انگریزوں کی غلامی اور مجاہدین آزادی کی جاسوسی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ہم مسٹر شرما کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اس ملک کا چپہ چپہ ہندوستانی مسلمانوں کی قربانیوں کا مقروض ہے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ ہو یا پھر آزاد ہندوستان کی تعمیر نو کا معاملہ مسلمانوں کی قربانیوں کا ذکر کئے بغیر اس کی کوئی تاریخ مکمل ہی نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں نے اس ملک کی عزت وآبرو کے لئے جتنا خون بہایا ہے اتنا تو مسٹر شرما کے نظریاتی آقاؤں نے اپنا پسینہ بھی نہیں بہایا۔ آج ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف لڑنے کی بجائے ان سے ساز باز کی اور مجاہدین آزادی کے خلاف سازشیں رچی تھیں۔ 1942 کی بھارت چھوڑو تحریک کی مخالفت کرنے والوں میں آر ایس ایس کے لوگ پیش پیش تھے جس میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کا نام بھی لیاجاتاہے۔ جبکہ شیر میسور ٹیپو سلطان سے لے کر شہید وطن اشفاق اللہ خاں تک یہاں ایسے ہزاروں سورماؤں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جنہوں نے انگریز سامراج سے لوہا لیا اور وطن کی خاطر تختہ دار کو بوسہ دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے لے کر ڈاکٹر عبدالکلام تک سینکڑوں نام ایسے ہیں جن کی بے مثال قربانیوں کے بغیرآزاد ہندوستان کی تعمیر نو کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر مہیش شرما جیسے بیمار ذہن لوگوں کا علاج کرانے کے لئے انہیں مرکزی کابینہ سے فوری طورپر فارغ کردیاجانا چاہئے۔ سب کا ساتھ اور سب کی ترقی کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوگا۔
masoom.moradabadi@gmail.com